والد محترم کی اس کتاب کو بھی جناب ڈاکٹر محمد منظور صاحب چیرمین انسٹیٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز نئی دہلی نے اپنے ادارے سے 2004ء میں شائع کی ہے۔کل صفحات 246 ہیں۔ جیسا کہ خود ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب کے پیش لفظ میں تحریر فرمایا ہے، لکھتے “زیر نظر تحریر اسلامی نظام زندگی مفتی صاحب کے ماضی میں شائع شدہ مضامین کا مجموعہ ہے، تین ابواب پر مشتمل یہ گلدستہ مضامین اسلامی نظام زندگی کے تقریبا سبھی اہم پہلوؤں پر محیط ہے، اس میں اخلاق و آداب، انسانی حقوق کی اہمیت اور مسلمانوں کے علمی کارناموں پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔” ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ “علاوہ ازیں بعض اچھوتے مضامین بھی کتاب کی اہمیت و وقعت میں اضافہ کا سبب بنے ہیں مثلا صوبہ بہار کی علمی تحریک اور اس سرزمین سے اٹھنے والے علماء کا مفصل تذکرہ۔” ڈاکٹر صاحب مفتی صاحب کے بڑے قدر دان اور انکے علوم و معارف کے دلدادہ ہیں۔ مفتی صاحب کے اسلوب نگارش کے سلسلے میں رقم طراز ہیں
“جہاں تک مفتی صاحب کے اسلوب کا تعلق ہے تو اس کے متعلق کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے، نصف صدی سے آپ علمی و ادبی میدان کے سرخیل سمجھے جاتے رہے ہیں۔اپنے آسان اسلوب، طاقت ور دلائل اور ذہنوں کو اپیل کرنے والے انداز کی وجہ سے ارباب ذوق مفتی صاحب کی تحریروں کے شیدائی رہے ہیں۔” اس سے پہلے ڈاکٹر صاحب مشاہیر علماء ہند کے علمی مراسلے ،اسلام کا نظام عفت و عصمت کا انگریزی ترجمہ اور اسلام کا نظام مساجد کا انگریزی ترجمہ بھی شائع کر چکے ہیں۔ کتاب کا پہلا باب ہے، اخلاق و آداب، اس میں چھ مضامین ہیں ۱۔اخلاص وللہیت اسلام کی نظر میں ۲۔آخرت کا استحضار ۳۔انسان کے اعمال و اخلاق اسلام کی نظر میں ۴۔قناعت اسلام میں ۵۔معصیت اور اس کے اثرات ۶۔تبلیغ حق اسلام کی نظر میں۔دوسرا باب ہے انسان حقوق اور ذمہ داریاں، اس میں پانچ مضامین ہیں ۱۔انسان کتاب اللہ کی روشنی میں ۲۔انسانی حقوق کی رعایت اسلام میں ۳۔انسانی حقوق اور انکی اہمیت ۴۔اسلام کے سماجی اصول و قوانین ۵۔اسلامی نظام حکومت۔تیسرا باب ہے، تابندہ نقوش، اس میں تین مضامین ہیں ۱۔مسلمانوں کا علمی شغف اور اسکی برکات ۲۔علماء دیوبند اور انکی دینی و علمی خدمات ۳۔شیخ الاسلام اور آزاد ہندوستان۔۔۔
ادارہ کے منتظم جناب ڈاکٹر محمد قمر اسحق صاحب نے تیسرے باب کے دوسرے مضمون کے عنوان، علماء دیوبند اور ان کی دینی و علمی خدمات کے نیچے اپنی طرف سے ایک واضح تحریر لکھ دی ہے “نصف صدی قبل کی بات ہے حکیم الامت حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر کے جلسہ میں تشریف لے گئے اس موقع پر حضرت مولانا مفتی محمد ظفیرالدین صاحب مفتاحی زید مجدہ نے اپنا علمی و تحقیقی مقالہ بعنوان علماء دیوبند اور انکی دینی و علمی خدمات پیش فرمایا تھا، حضرت حکیم الامت کو یہ مقالہ اتنا پسند آیا کہ آپ نے مفتی صاحب کو ازہر ہند دارالعلوم دیوبند آنے کی نہ صرف دعوت دی بلکہ اس پر اصرار بھی فرمایا۔۔الخ۔ جناب ڈاکٹر قمر اسحق صاحب کو سہو ہوا ہے، وہ مقالہ دوسرا ہے جو اسی کتاب میں تیسرے باب کا پہلا مضمون ہے جس کا عنوان ہے، مسلمانوں کا علمی شغف اور اسکی برکات، یہ بہت ہی تحقیقی اور قیمتی مقالہ ہے۔اس کے ذیلی عنوانات سے اس کی اہمیت سمجھی جاسکتی ہے،اس کے ذیلی عنوانات ہیں، اسلام میں تعلیم و تعلم کی ابتدا،شعبہ علم و فن کی اصلاحات، اسلام میں جبریہ تعلیم کا آغاز، علم کی فضیلت قرآن میں، حدیث نبوی میں، مسلمانوں پر ترغیب کا اثر ،علم و فن کا مقصد ظلم نہیں ہے، برے مقصد پر اہل علم کے لیے وعید، مسلمانوں کی خدمت علم کی ابتدا،تعلیم کی اہمیت پیغمبر اسلام کی نظر میں، صحابہ کرام کا نقطۂ نظر، علم اور صحابہ کرام، علم نے صحابہ کو کس طرح کا فائدہ پہنچا یا،اشاعت علم عہد صحابہ میں، عہد صحابہ کے بعد ذوق علم، اموی دور میں علمی شغف، دور عباسیہ میں علوم کی طرف توجہ، خلیفہ منصور کی علم پروری، ہارون رشید کا دور حکومت علمی سرپرستی کا عہد شباب،یونانی کتابوں کا ترجمہ، مامون کی علم نوازی کا شہرہ ہندوستان میں، الحکم ثانی کا علمی ذوق، نایاب کتابوں کی فراہمی، اندلس یورپ کا استاذ، مسلمانوں میں تعلیم کی اہمیت، علماء اسلام کی علمی خدمات، علمی ذوق پر ذاتی اخراجات، علماء اسلام کی تصانیف، ارقام ہندیہ، مسلمان سلاطین ہند کی علم نوازی، بابر کا کتب خانہ، ہمایوں کا ذوق ،غیر ملکوں سے کتابوں کا تحفہ، اکبر کا ذوق،جہانگیر کا علمی ذوق، علماء ہند کی علمی خدمات،ہندی علماء کی تصانیف،مفتی صدرالدین کا کتب خانہ، نیم آزاد مسلم ریاستوں کی خدمت، غلام ہندوستان میں علماء کی خدمات، بہار کا علمی مذاق،علماء بہار کا علمی شغف،عہد بلبن سے شاہ عالم تک،مسلمانی دور حکومت میں علماء بہار کی حیثیت،علماء بہار کو سلاطین ہند کے استاذ ہونے کا فخر،غیر ملکوں میں علماء بہار،اپنے ملک میں علماء بہار کا مقام، علماء بہار،علامہ سید سلیمان ندوی، حضرت مولانا محمد علی مونگیری۔۔ ۔۔۔۔ یہ مقالہ جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر کے کتب خانہ کی نئی عمارت کے افتتاح کے موقع سے ایک بڑے اجلاس میں والد محترم نے پڑھا تھا۔اس اجلاس میں شیخ الاسلام حضرت مدنی اور حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند موجود تھے،اور اس کے ایک ماہ بعد ہی حضرت مہتمم صاحب نے مفتی صاحب کو دارالعلوم دیوبند لانے کے لیے سلسلہ جنبانی شروع فرمادی تھی۔۔۔رحمہم اللہ رحمۃ واسعہ
( احمد سجاد قاسمی )
“وہ جو شمس تھا سرِ آسماں” has been added to your cart. View cart
-32%
Previous product
Back to products
مشاہیر علماءِ ہند کے علمی مراسلے
₹295.00 Original price was: ₹295.00.₹230.00Current price is: ₹230.00.
Next product
فتاوی قاضی
₹350.00 Original price was: ₹350.00.₹299.00Current price is: ₹299.00.
اسلامی نظامِ زندگی کے آثار و نقوش
₹220.00 Original price was: ₹220.00.₹150.00Current price is: ₹150.00.
25 in stock
Categories: Urdu, اسلامیات
Tags: انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز، نئی دہلی, مجموعۂ مقالات, مفتی ظفیر الدین مفتاحی
Description
Reviews (0)
Be the first to review “اسلامی نظامِ زندگی کے آثار و نقوش” Cancel reply
Shipping & Delivery
free delivery on Booksexpress.in orders Above 500 inr
Related products
اتحاد امت سورہ الحجرات کی روشنی میں
اردو میں ترجمۂ قرآن کی تاریخ
Rated 5.00 out of 5
Reviews
There are no reviews yet.