“بالمشافہ” ایک تعارف
معصوم مرادآبادی
بالمشافہ‘ ادبی انٹرویوزکامجموعہ ہے، جس میں ہمارے عہدکے شہرہ آفاق ادیبوں، شاعروں اور فن کاروں سے مکالمہ شامل ہے۔پہلے پہل اس کی اشاعت 1996 میں عمل میں آئی تھی۔ کتاب عرصے سے نایاب تھی اور مجھ پر اسے نئے اضافوں کے ساتھ دوبارہ شائع کرنے کا دباؤ تھا۔مگر کاروبار زندگی نے اس کی مہلت ہی نہیں دی کہ میں ایسا کرپاتا۔کام کی بہتات اور وقت کی قلت حسن نعیم کے اس شعر کی مانند میرا تعاقب کرتی رہی ہے۔
کون مجھ سے پوچھتا ہے روز اتنے پیار سے
کام کتنا ہوچکا ہے، وقت کتنا رہ گیا
ہم صحافیوں کی یہ مجبوری ہوتی ہے کہ ہروقت ہاتھ میں کوئی نہ کام رہتاہے۔ادھر جب سے میں نے سرکردہ شخصیات اور کتابوں پر لکھنا شروع کیا ہے، تب سے صورتحال پیچیدہ ہوگئی ہے۔کئی ایسے لوگوں کی ناراضگی کا نشانہ بنا ہوں، جن کی توقعات پر میں کھرا نہیں اترسکا۔باوجود کوشش کے ایسے کئی کام چھوٹ جاتے ہیں، جنھیں میں اوّل وقت میں پورا کرنا چاہتا ہوں۔ ان ہی اہم کاموں میں ’بالمشافہ‘ کی نئی اشاعت کاکام بھی تھا، جوبالآخر اب پورا ہوا ہے۔کتاب بائنڈنگ میں ہے اور جلد ہی آپ کے ہاتھوں میں ہوگی۔یہ میری پہلی کتاب تھی اور اس سے مجھے وہی انسیت ہے جو پہلی اولاد سے ہوتی ہے۔مکتبہ جامعہ کے منیجراور میرے کرم فرماشاہد علی خاں مرحوم ایک بارمیری ایک نئی کتاب کی مبارکباد دیتے ہوئے کہاتھا ”کتاب اولاد کی طرح ہوتی ہے۔“
اردوصحافت سے اپنی چالیس سالہ وابستگی کے دوران سیاست دانوں کے انٹرویولینا میری ہابی تھی۔میں نے کم وبیش ایک ہزار لوگوں کے انٹرویو لیے۔اسی دوران خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے عہد کے نمائندہ ادیبوں، شاعروں اور فن کاروں سے بھی مکالمہ کیا جائے۔ یہ نوّے کی دہائی کا وہ دور تھا، جب دہلی میں علی صدیقی نے عالمی اردو کانفرنسیں شروع کی تھیں۔اس دوران عالمی سطح کے اردو ادیبوں اور شاعروں کا دہلی میں میلہ سا لگا رہتاتھا۔ میں نے موقع کو غنیمت جانا اور ان کے انٹرویوز لینے شروع کردئیے۔ شاعروں میں اخترالایمان،کیف بھوپالی، حبیب جالب،علی سردار جعفری، احمد فراز،افتخار عارف، مظفر وارثی، بیکل اتساہی، ملک زادہ منظوراحمد،بشیر بدر،جاوید اختر، عطاء الحق قاسمی، سریندر شرما اور صلاح الدیں پرویزکے انٹرویوزاس کتاب میں شامل ہیں،جبکہ فکشن نگاروں میں جوگندر پال اوربھگوان گڈوانی کے علاوہ بھیشم ساہنی اور حبیب تنویروغیرہ بھی ہیں۔
اس کتاب کا پہلا ایڈیشن فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی لکھنؤ کے تعاون سے شائع ہوا تھا، جس نے اس کتاب میں شامل صلاح الدین پرویز کے انٹرویو کو سینسر کردیا تھا، لیکن اب نئے اڈیشن میں یہ انٹرویو جوں کا توں شامل کردیا گیاہے۔اس میں جو اضافے کئے گئے ہیں، ان میں صلاح الدیں پرویز کے علاوہ ملک زادہ منظوراحمد، اورعطاء الحق قاسمی کے انٹرویوز ہیں۔اس کتاب میں اردو سافٹ وئیر کے موجداحمد مرزا جمیل کا بھی انٹرویو ہے جو میں نے کراچی جاکر لیا تھااور اس انٹرویو کے ذریعہ ہی ہندوستان میں لوگ کمپیوٹر کی کتابت سے واقف ہوئے تھے۔ ایک خاص مکالمہ فرقہ واریت کے مسئلہ پر ہے جس میں بھیشم ساہنی، جاوید اختر،حبیب تنویر اور سریندر شرما جیسے لوگ شامل ہیں۔ مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ تلاش بسیار کے بعد بھی پاکستانی شاعر قتیل شفائی کا انٹرویو ریکارڈ میں نہیں مل سکا، البتہ اس انٹرویو پر مظفر وارثی کا دھواں دھار ردعمل کتاب میں شامل ہے۔
اس کتاب کا دیباچہ پروفیسر شمیم حنفی نے لکھا تھاجبکہ اس پر سیرحاصل تبصرے کرنے والوں میں ڈاکٹر خاور ہاشمی، جی ڈی چندن،ڈاکٹر رضوان احمد،حقانی القاسمی،رحمت اللہ فاروقی، پروفیسر سراج اجملی اور جعفرعباس جیسے معتبر نام شامل ہیں۔یہ تبصرے بھی اس کتاب میں شامل کردئیے گئے ہیں۔
انٹرویوز کی کتابیں اردو میں شاذونادر ہی شائع ہوتی ہیں۔ سرحد پار یہ کام ڈاکٹر طاہر مسعود نے بڑی مہارت اور خوش اسلوبی سے انجام دیاہے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ اپنے مخاطب سے وہ باتیں کہلواؤں جو ادب کے عام قاری کے ذہن میں پیدا ہوتی ہیں۔اپنی اس کوشش میں مجھے کتنی کامیابی ملی ہے، اس کا فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔میں اپنی کاوشوں کے بارے میں کبھی کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہا۔ جو کچھ لکھتا پڑھتا ہوں، وہ بے کم وکاست آپ کے حوالے کردیتا ہوں، سو یہ کتاب بھی پچھلی تمام کتابوں کی طرح آپ کے سپرد ہے۔ اس سلسلہ میں برادرعزیز اویس سنبھلی کا شکریہ مجھ پر واجب ہے، جنھوں نے نہ صرف اس کتاب کی اشاعت نو پر مسلسل اصرار کیا بلکہ طباعت کی ذمہ داری بھی اپنے کاندھوں پر لے لی۔ خدا انھیں ہمیشہ شادوآباد رکھے۔یہ کتاب ان ہی کے ادارے نعمانی کئیر فاؤنڈیشن نے شائع کی ہے۔
Reviews
There are no reviews yet.