عدالت صحابہ، ایک اجماعی مسئلہ
صحابہ کرام اور ان کی دینی و شرعی حیثیت کی تعیین زمانۂ ماضی سے ایک اختلافی بحث اور مشہور مسئلہ رہا ہے، مختلف گمراہ فرقوں کے نظریات اور عملی بے راہ روی سے یہ بحث دور صحابہ میں ہی چھڑ گئی تھی، کہ صحابہ کرام کی ذات دین میں کیا حیثیت رکھتی ہے، ان کا مقام و مرتبہ کیا ہے، ان کے انفرادی و اجتماعی عمل کس نظر سے دیکھے جائیں گے۔
اسی موضوع پر ہمارے سینئر ساتھی اور لائق فائق نوجوان اسامہ عظیم شاہجہاں پوری نے بھی ایک وقیع اور عمدہ کتابچہ “عدالت صحابہ؛ ایک اجماعی مسئلہ” تصنیف کیا ہے، موصوف اپنی صلاحیتِ علمی اور سلامتِ فکر میں معروف ہیں، ایک طویل عرصے مادر علمی دارالعلوم دیوبند میں رہ کر اس علمی چمنستان سے خوشہ چینی کی ہے، اور اب بھی ادارے کے مؤقر شعبے تکمیل افتاء میں داخل ہیں۔
یہ کتاب در اصل موصوف کا تخصص فی الحدیث کا ایک مقالہ ہے، گذشتہ چند سالوں میں صحابہ کرام پر انگشت نمائی ایک فیشن سا بن گیا ہے، ہر ایرا غیرا بغیر سوچے سمجھے اس مقدس جماعت پر حرف زنی کرنے لگتا ہے، جس کی تربیت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالق کائنات کی نگرانی میں کی تھی، ان ہی حالات کو دیکھتے ہوئے محترم موصوف نے بحر العلوم مولانا نعمت اللہ اعظمی کے حکم پر اپنے مقالے کو، مفید و ضروری اضافوں کے ساتھ کتاب کی شکل دی۔
مذکورہ کتاب مصنف نے بندے کو تحفتاً عنایت کی، جس کے لیے ہم ان کے شکر گزار ہیں اور مزید ترقیات کے لیے دعا گو ہیں۔
جس موضوع پر پہلے سے تحریری ورثہ موجود ہو، اس کے متعلق اگر کوئی کتاب یا رسالہ منظر عام پر آتا ہے، تو عمومی خیال یہی ہوتا ہے کہ پرانے مباحث و اقوال کا تکرار ہوگا، اور یہ بدیہی چیز ہے، کیوں کہ اگر موضوع ایک ہو، تو مضامین کی مماثلت سے بچ پانا ناممکن سی بات ہے۔
اس کتاب میں بھی بعض کتابوں کے ساتھ مباحث و مضامین کے تئیں مماثلت و تکرار موجود ہے، لیکن اس کے ساتھ نئے مضامین کی شمولیت اور بعض مفید اضافوں کی بنیاد پر کتاب میں افادیت کا پہلو بھی ہے۔
ان اضافوں میں سب سے اہم اور امتیازی اضافے تین ہیں، جو اس کتابچے کو پہلے لکھی گئی تمام کتب سے جدا کرتے ہیں:
1- اکثر مسائل میں قدیم مواقف و تحقیقات ذکر کرنے کے ساتھ، بحر العلوم نعمت اللہ اعظمی کی تحقیقات ذکر کی گئی ہیں، جو اہل علم کے لیے بیش بہا نعمت ہے۔ اس سلسلے میں کہیں حضرت کے افادات اور کہیں علامہ ابن حجر عسقلانی کی مشہور کتاب “الاصابہ فی تمییز الصحابہ” کے مقدمے پر حضرت بحر العلوم کی تعلیقات نافعہ سے استفادہ کیا گیا ہے۔
2- کچھ عرصے قبل ایک طبقے کی جانب سے بڑے شد و مد کے ساتھ یہ آواز اٹھائی گئی کہ “صحابہ کرام میں بعض منافق تھے”، یہ بات مستشرقین اور ابوریّہ کا ہی چبایا ہوا لقمہ تھا، اس لیے کتاب میں کسی طبقے یا شخصیت کا نام لیے بغیر، ابوریّہ کی نسبت سے ہی اس دعوے کا رد کیا گیا ہے اور بلا شبہ بہترین رد ہے، مطالعے کے دوران مجھے پوری کتاب میں کسی مقام پر وہ اطمینان، تشفی اور دلائل کی قوت محسوس نہیں ہوئی، جتنی اس مقام پر ہوئی، خالص نقلی دلائل سے اس لچر اور بے بنیاد دعوے کا زبردست رد کیا گیا ہے۔
3- حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ کا حدیث کے متعلق کیا معاملہ تھا، وہ حدیث چھپاتے تھے یا نہیں… کتاب میں یہ موضوع بھی قابلِ ذکر ہے، اگرچہ پہلی بحث کے مقابلے یہ بحث اتنی زور دار نہیں ہے۔
میری نظر میں یہ وہ تین خصوصیات ہیں، جو اس کتابچے کو اس موضوع کی دیگر کتب سے ممتاز کرتی ہے۔
کتاب عمومی طور پر باحوالہ اور دلائل سے مزین ہے، لیکن چند مقامات پر مزید حوالوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے،
کتابچے کے مجموعی صفحات 134 ہیں، اور مصنف نے 80 روپے اس کی قیمت رکھی ہے، جو کہ کتاب کی ضخامت، اس کے کاغذ اور دیگر چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے زائد لگتی ہے، اس ضخامت کی عام کتب 50 روپے سے زائد کی نہیں ہوتیں۔
بہرکیف..! مجموعی طور پر یہ ایک کامیاب اور مفید کتاب ہے، موضوع کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے ہمیں اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔
ابن مالک ایوبی
Reviews
There are no reviews yet.